’تم پر میرا اعتماد سمندر کی طرح گہرا ہے اور میرا پیار بے تحاشا اور بھرپور‘

0
1017
barak ubammma
barak ubammma

ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ خطوط براک اوباما نے الیگزینڈرا مک نیر کو لکھے تھے جن سے وہ کیلیفورنیا میں ملے تھے۔

صدر اوباما کے آنسو اور سوشل میڈیا

’رولرکوسٹر رومانس‘

مستقبل میں صدر بن جانے والے براک اوباما اپنی عملی زندگی کے ابتدائی دور کی مشکلات اور ملازمت سے کافی پریشان ہوئے۔

یہ خطوط سنہ 2014 ایمروئے یونیورسٹی کی روز لائبریری کی جانب سے حاصل کیے جانے کے بعد اب شائع کیے گئے ہیں۔

لائبریری کی ڈائریکٹر روزمیری میگی کا کہنا تھا ’یہ خطوط بہت خوبصورتی سے لکھے گئے ہیں اور یہ ایک نوجوان کی زندگی کے معنی اور شناخت کی تلاش کو ظاہر کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’یہ خطوط ایسے ہی تمام مسائل کو ظاہر کرتے ہیں جو ہمارے طلبہ محسوس کرتے ہیں اور ہر جگہ طلبہ کو ان کا سامنا رہتا ہے۔‘

یہ خطوط انھوں نے سنہ 1982 سے 1984 کے دوران مشیل اوباما سے ملاقات سے قبل لکھے۔

اپنے اولین خط میں انھوں نے لکھا ’مجھے یقین ہے کہ تم جانتی ہو کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتا ہوں اور تمہارے لیے میری پرواہ اس ہوا کی طرح وسیع ہے، تم پر میرا اعتماد سمندر کی طرح گہرا ہے اور میرا پیار بے تحاشا اور بھرپور ہے۔‘

 

 

gettyimages

آخر میں لکھا تھا ’محبت ، براک‘

لیکن دوریوں کے باعث یہ رشتہ نہیں چل سکا۔ سنہ 1983 میں براک اوباما نے انہیں بتایا کہ ’میں اب بھی اکثر تمہارے بارے میں سوچتا ہوں لیکن میں احساسات کے بارے میں اب بھی متذبذب ہوں۔‘

’ایسا لگتا ہے کہ وہ سب چاہتے ہیں وہ ہم کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہی ہمیں باندھے ہوئے ہے، یہی ہمیں الگ رکھے ہوئے ہیں۔‘

ایک دوسرے خط میں نوجوان اوباما نے لکھا تھا کہ ان کا ایک دوست برسرِ روز گار ہونے والا ہے وہ اپنا خاندانی کاروبار سنبھالے گا۔

ان کے والد کا تعلق کینیا سے تھا وہ خود ہوائی میں پیدا ہوئے اور زندگی کا ابتدائی حصہ انڈونیشیا میں گذارا اس لیے وہ ذرا مختلف محسوس کرتے تھے۔

انھوں نے لکھا ’میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے رشک آتا ہے۔‘

’کوئی ایسی سماجی حیثیت، مقام یا روایت نہیں جو میرے حق میں ہو۔ ایسا لگتا ہے میرے لیے کوئی الگ ہی راستہ ہے۔‘

’اپنے احساسِ تنہائی کو دور کرنے کے لیے میری پاس ایک ہی حل ہے کہ میں تمام روایات، سماجی حیثیتوں کو خود میں ضم کر لوں اور انہیں اپنا لُوں اور ان کا ہو جاؤں۔‘

لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔

سنہ 1983 میں گریجویٹ ہونے کے بعد جب وہ انڈونیشیا لوٹے جہاں وہ بڑے ہوئے تھے، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ اب وہاں کے نہیں رہے۔ ان کا کہنا تھا ’میں یہاں کی زبان اب اچھی طرح نہیں بول پاتا۔‘

’میرے ساتھ الجھن، اختلاف اور حقارت کا ملا جلا برتاؤ ہوا کیونکہ میں ایک امریکی تھا۔ میرا پیشہ اور میرا جہاز کا ٹکٹ میرے سیاہ فام ہونے پر حاوی آ گیا۔‘

پرانی سڑکیں، کچے گھر کھیتوں سے پرے چھوٹنے لگے۔ میری پرانے راستے اب میرے نہیں رہے تھے، مجھے ان تک رسائی نہیں رہی۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here