پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نےامریکہ میں مقیم پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کر لیا ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ایف آئی اے نے انٹرپول کو خط لکھ کر حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے تین روز پہلےحسین حقانی کی جانب سے ‘میموگیٹ’ نامی مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے حسین حقانی کی جانب سے حلف کی خلاف ورزی پر یہ وارنٹ جاری کیے ہیں۔
میمو گیٹ سکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔
میمو گیٹ کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد حسین حقانی نے بطور سفیر استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس مقدمے کے دائر ہونے کے بعد حسین حقانی پاکستان آئے اور سپریم کورٹ میں پیش بھی ہوئے۔ انھیں 2013 میں اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ واپس عدالت میں پیش ہوں گے، انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی لیکن وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد واپس پاکستان نہیں آئے۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں میمو گیٹ کے مقدمے شنوائی شروع ہوئی جس میں حال ہی سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے والے میاں نواز شریف بھی درخواست گزاروں میں سے ایک تھے۔
اب جب میاں نواز شریف اعلیٰ عدلیہ کی مبینہ مداخلت کے خلاف بات کرتے ہیں تو انھیں میموگیٹ میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں جانے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں حسین حقانی کی وکالت کی تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے عدالت کی کارروائی کے دوران کہا تھا کہ اگر نواز شریف کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی کا شوق ہے تو جب وہ حکومت میں آئیں تو اپنا شوق پورا کر لینا۔ شکریہ بی بی سی اردو