-
تحریر
تقریباََِ ستر سال پہلے ہمارئے آباﺅ اجداد نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہزاروں جانوں کو قربان کر کے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کر لی تھی،مگر ذہنی طور پر آج بھی ہم انگریز اور مغرب کے غلام ہیں۔ہم ان کی زبان،اُن کے لباس اور ان کے معاشرے کی نقل کر کے اپنی زندگی بسر کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں،ہم ان کے مذہبی تہوار بھی کسی نا کسی طرح سے ضرور نقل کر لیتے ہیںاور جدید معاشرئے اور وقت کے تقاضئے کا نام دئے کر جدید اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔”ویلنٹائن ڈئے“بھی مغربی معاشرئے کا ایک جزو ہے جو کینسر کی طرح ہمارئے ملک میں پھیل چکا ہے،جس کی اصل سے بہت کم لوگ واقف ہیں اور جن لوگوں پر اس کی حقیقت عیاں ہے وہ بھی اپنے ملک کے اسلامی معاشرئے کو درست کر کے ذہنی طور پر مغربی معاشرئے کے تسلط سے آزاد کرنے اور اپنے معاشرئے کو درست کرنے کا ذمہ لینے کی بجائے یہ کہہ کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں کہ سو ظالموں میں ایک مظلوم کیا کرئے؟ دوسری صدی عیسوی میں روم کے بادشاہ کلاڈیس کے سر پر پوری دنیا فتح کرنے کا بھُوت سوار تھا،اس نے جنگ و جدل کا دور دورہ کر رکھا تھا ،اس نے فتح کی تکمیل کیلئے اپنے سارئے ہمسائیہ ممالک پر چڑھائی شروع کر دی مخالف سمت سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑااور جنگ طویل ہوتی چلی گئی ،ہزاروں کی تعداد میں فوج کے سپاہی مارئے گئے،کلاڈیس کے وزیروں اور سپاہ سالاروں نے فوج میں نئی بھرتی کرنے کا مشورہ دیا،لیکن روم کے لوگ خصوصاََنوجوان طبقہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے عادی تھے اسلیئے جنگ کے زمانے میںفوج میں بھرتی ہو کر دشمن سے لڑنے اور موت سے کھیلنے کے عمل سے دور رہتے تھے،اس پر بادشاہ نے بھی یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ کوئی بھی کنوارہ مرد شادی نہیں کر سکے گا صرف اُن لوگوں کو شادی کی اجازت ہو گی جو فوج میں بھرتی ہوں اور جنگ ختم ہونے کے بعد واپس آئیں۔لیکن روم کے ایک کیتھولک چرچ کے پادری سینٹ ویلنٹائن نے بادشاہ کے اس حکم نہ کی اور بغاوت کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں لڑکیوں اور لڑکوں کو چرچ میں جمع کر کے اُن کی شادیاں کروانا شروع کر دیں،پادری کی اس حرکت پر بادشاہ نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا ۔جیل میں قید کے دوران پادری نے جیلر کی ایک انتہائی خوبصورت بیٹی جو آنکھوں کی بینائی سے محروم تھی اور پہلی ہی نظر اسے دیکھتے ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا،لیکن تھوڑئے ہی عرصے میں پادری سینٹ ویلنٹائن اور جیلر کی بیٹی کے عشق کا راز فاش ہو گیا اور اس مقدمے کی بنا پر جج نے اسے موت کی سزا سنا دی ا سی سزا پر عمل درامد سے کچھ دن قبل سینٹ ویلنٹائن نے ایک چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے پر ”فرام یور ویلنٹائن “لکھ کر اپنی محبوبہ جیلر کی بیٹی کو بھجوا دیا اس کے تھوڑے ہی دن بعد 14فروری کے دن پادری کو تختہ ِدار پر لٹکا دیا گیا ۔ایک سال گزرنے کے بعد سینٹ ویلنٹائن کی برسی کے موقع پر روم کے نواجوانوںنے اس پادری کی برسی کو ہر سال ”ویلنٹائن ڈے “کے نام سے منانے کا اعلان کر دیا اور ےوںےہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ۔90کی دہائی تک ”ویلنٹائن ڈے “صرف بڑے شہروں اور امراءکے حلقہ احباب تک ہی محدود تھا مگر پچھلے چند سالوں سے ”ویلنٹائن ڈے “کی لعنت ہمارے گاﺅ ں،قصبوں اور پسماندہ علاقوں تک پہنچ چکی ہے ۔فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے سارے بازار ویلنٹائن کارڈ ز ،رنگ برنگے پھولوں وغیرہ سے سج جاتے ہیں۔مغرب مسلمانوں کو گمرا ہ کرنے کے لیے ہر قسم کی چال چل رہا ہے اور ہم ہیں کہ مذہب اسلام کے اصولوں اور نبی پاک ﷺکی نسبت کو چھوڑ کر مغربی معاشرے کو اپنے معاشرے کا لا زمی جزو بنا رہے ہیں ۔ہم اپنے آباﺅ اجداد جنہوں نے اس ملک کے قیام کے لیے اپنی جانو ں کا نذرانہ پیش کیا اور اس کے بدلے آج ہم اےک آزاد فضا ءمیں سانس لے رہے ہیں اُن کی اور اپنے دیگر قومی ہیروز کی برسی ماننا تو در کنار ےا د تک بھی نہیں رکھتے مگر دوسری صدی عیسوی میں مرنے والے غیر مسلم اےک چرچ کے پادری سینٹ ویلنٹائن کی برسی ”ویلنٹائن ڈے “کے نام سے منانے کے لیے ہفتوں پہلے تیاریا ں شروع کے دیتے ہیں ۔ہم اپنے محسن قائد اعظم محمد علی جناح جو بانیِ پاکستان ،دو قومی نظریہ پیش کرنے والے اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور بابا ئے اردو مولوی عبدالحق نے ہمیں ایک الگ زبان دے کر ہمیں پوری دینا میں متعارف کروایا اور اِن جیسے دیگر ہیروز کی برسیاں اتنی شان و شوکت کے ساتھ نہیں مناتے جتنی شان و شوکت کے ساتھ ”ویلنٹائن ڈے “کے نام پر دوسری صدی عیسوی میں مرنے والے غیر مسلم اےک چرچ کے پادری سینٹ ویلنٹائن کی برسی منا تے ہیں ۔شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہاں گئی وہ غیرت جو آقا ئے دو جہاں محمدﷺ ہمیں دے کر گئے تھے ؟کہا ں گئی وہ وفا جو صدیق اکبر ؓ ہمیں دے کر گئے تھے؟ کیا ہو کیا گےہے ہماری غیرت کو؟ کیا ہو گیا ہے ہماری حیائ کو ؟یہی وجہ ہے کہ ہمارا ہر آنے والا دن بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اللہ پاک غیر مسلموں اور کافروں کو معاف کر سکتا ہے لیکن اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو اللہ پاک ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گے کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءاکرام کے ذریعے ،اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعے اور سنت نبوی ﷺ کے ذریعے ہمیں زندگی کے تمام راستے بتا دےئے ہیں اچھائی اور برائی کا راستہ،اچھائی کی منزل جنت اور برائی کی منزل جہنم بھی بتا دی ۔اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔شاید اللہ تعالیٰ ہمیں اس لیے بھی معاف نہیں کریں گے کیو نکہ اُس نے ہمارے لیے توبہ کے دروازے بھی کھلے رکھے ہیں مگر ہم ہیں کہ اس توبہ کے دروازے کے پاس تک بھی نہیں جاتے۔ہماری قوم نہ صرف اسلامی اور مذہبی اقدار سے دور ہو رہی ہے بلکہ اپنے قومی ہیروز کو بھول کر غیر مسلم اور مغربی نام نہاد ہیروز کے قول و فعل کو اپنا شعار بنا رہے ہیں ۔ہم دو قومی نظرےے کی بنےاد پر قائم ہونے والے ایک اسلامی ملک ِپاکستان میں مغربی معاشرے کو پروان چڑھا کر دو قومی نظریے کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کے محسن اور دو قومی نظرےے کی بنےاد پر قیام پاکستان کا نظرےہ دینے والے علامہ محمد اقبال کے اس قوُل کی بھی نفی کر رہے ہیں ۔