ساہیوال (سردار حمزہ گجر) انتخابات 2018 کےمتوقع امیدوار عام انتخابات میں پی پی 202 کے متوقع امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے چوہدری حنیف جٹ ہیں جن کو ٹکٹ ملنے کا قوی امکان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ملک نعمان لنگڑیال اگر این اے 149 کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں یا پی ٹی آئی کی طرف سے پی پی 202 کے امیدوار ہونگے۔ پی ٹی آئی کے میجر (ر) غلام سرور، نعمان لنگڑیال کے کزن مسعود لنگڑیال اور محمد نعیم اختر بھی اسی حلقے سے ٹکٹ کے خواہشمند ہیں اور الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میجر(ر) غلام سرور پچھلے دنوں کسووال میں ایک ورکرز کنونشن منعقد کر کے انتخابی حلقوں میں توجہ حاصل کر چکے ہیں جس میں شاہ محمود قریشی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
یہ بھی پڑھئے: سیاست چیچہ وطنی: پی پی 200 کی تازہ ترین صورتحال
پی ٹی آئی کے مذکورہ بالا تینوں امیدواران کےعلاوہ چوہدری سعید گجر نے بھی اس حلقے سے پی ٹی آئی ٹکٹ کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ چوہدری سعید احمد گجر کچھ عرصہ سیاسی منظر نامے سے غائب رہے ہیں تاہم اس حلقے میں وہ مضبوط امیدوار ہیں اور آزاد حیثیت میں بھی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا مختصر تعارف اویس سکندر کی زبانی:
چودھری سعید احمد گجر نے 1970 کی دہائی میں سیاست کا آغاز گراس روٹ لیول سے کونسلر منتخب ہو کر کیا۔ اس کے بعد انھوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ٹھرے ۔ وہ دو ادوار میں چھ سال تک کے عرصے کیلئے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر رہے ۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر 1988 میں مسلسل دوسری بار ایم پی اے منتخب ہوئے۔ تیسری بارمسلم لیگ ن کے ہی ٹکٹ پر 1997 میں ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ اپنے تین صوبائی ادوار میں پارلیمانی سیکرٹری رہے ۔۔ جس کے بعد 2002 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر فاروق خان لغاری کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ضمنی انتخابات میں این اے 163، جو کہ اب حلقہ این اے 149 میں ضم ہو چکا ہے، ایم این اے منتخب ہوئے اور چیرمیں اسٹینڈنگ کمیٹی آف ریونیو رہے۔ ان کے اس پانچ سالہ دور میں کسووال شہر کے ساتھ 25 گاؤں میں سوئی گیس دینا ان کا بڑا کارنامہ تھا ۔ 2008 کے الیکشن میں انہوں نے این اے 163 سے آزاد حیثیت سے حصہ لیا تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے حاصل کردہ ووٹ 17 ہزار 7 سو 8 تھے۔ 2013 کے انتخابات میں انہوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا لیکن مسلم لیگ ن کی سپورٹ کی۔ اب وہ حلقہ کی عوام کی فرمائش پر دوبارہ سیاست میں حصہ لے رہے ہیں اور پی پی 202 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے امکان ہے کہ اس باربھی منشاء باٹھ ہی امیدوار ہونگے جو کہ 2013 کے عام انتخابات کے رنر اپ ہیں۔
قلمکار سلمان بشیر کے مطابق ان علاقوں میں نظریاتی ووٹ کم جبکہ دھڑے بندی کا ووٹ زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لنگڑیال خاندان نے گزشتہ الیکشن کے رنرز اپ نعمان لنگڑیال کی والدہ نسیم اقبال اور بہن آمنہ نوید کو بائی پاس کر کے ٹکٹ کے لیے مسعود لنگڑیال کو نامزد کیا ہے۔ جن کہ حلقے میں اتنی پہچان نہیں ہے۔ نظریاتی ووٹ اس علاقے میں صرف اس جنریشن کا ہے جو پڑھ لکھ گئے ہیں۔ وہ دھڑے بندی کی بجائے پارٹی کو ووٹ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔تاہم اس حلقے میں نظریاتی ووٹ کی بھی بڑی تعداد ہے۔
پی پی 202 کے سیاسی منظرنامے میں سب سے زیادہ کشمکش پی ٹی آئی کے امیدواران میں پائی جاتی ہے۔ جہاں لنگڑیال خاندان اور چوہدری سعیداحمد گجر خاندان اپنی اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑیں گے۔ بظاہر پی ٹی آئی کے لیے مشکل فیصلہ ہو گا کہ لنگڑیال خاندان کو بائی پاس کر کے میجر (ر) غلام سرور یا چوہدری سعید احمد گجر کو ٹکٹ سے نوازیں۔ جبکہ ٹکٹ کے سلسلے میں مسلم لیگ ن کے چوہدری حنیف جٹ کےلیے میدان صاف ہے اور کم از کم انہیں ان مسائل کا سامنا نہیں ہے جو پی ٹی آئی کے امیدواران کو ہے۔
سردار حمزه گوجر