سعودی آجر کمپنی کے دیوالیہ ہونے کے دو سال بعد بھی پاکستان لوٹنے والے بہت سے ملازمین اب تک اپنے بقایاجات کی ادائیگی کے منتظر ہیں۔
ان تمام متاثرین نے مل کر کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا ارادہ کیا ہے جو پانچ مارچ کو کراچی پریس کلب کے سامنے اور اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے کیا جائے گا۔
یہ 2016 کی بات ہے جب یکے بعد دیگر سعودی عرب میں موجود کمپنیوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے دیا جس سے دمام، ریاض، طائف اور جدہ میں کام کرنے والے تقریباً 12000 پاکستانی متاثر ہوئے۔
ان کام کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد الیکٹریشن، رنگ کرنے والوں اور مکہ اور اس کے اطراف میں فرش کی تزیئن کرنے والوں کی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب اور سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔
کراچی کے علاقے کیماڑی میں رہائش پذیر محمد شاہد سعودی عرب سے لوٹنے والے ملازمین میں سے ایک ہیں۔
محمد شاہد بتاتے ہیں کہ سنہ 2016 کے شروع میں انھیں کام سے یہ کہہ کر فارغ کیا گیا تھا کہ ان کو دوسری جگہ کام دلایا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
’ہمیں مطمئن کردیا گیا کہ ہمیں ہمارے بقایا جات دیے جائیں گے اور اس طرح ہمیں ریاض میں موجود قدسیہ کیمپ میں واپس بھیج دیا گیاـ لیکن اکتوبر 2016 کی رات کو مقامی پولیس کی گاڑیاں آئیں اور ہمیں واپس اسلام آباد بھیج دیا گیاـ محمد شاہد بتاتے ہیں کہ واپس آنے والوں میں سے 40 فیصد کے پاس نوکریاں ہیں لیکن باقی 60 فیصد اب بھی کام کی تلاش میں ہیں۔ وہ خود دیہاڑی پر چلے جاتے ہیں جس سے دن کے کچھ پیسے بن جاتے ہیں، لیکن محمد شاہد کہتے ہیں اس کمائی سے زیادہ نہیں بچتاـ
’میں رنگ و روغن کا کام کرنے مارچ 2014 کو کراچی سے سعودی عرب گیا تھا۔ میں اس کے علاوہ بھی جو کام مل جاتا تھا کرلیتا تھا اور اب بھی یہی کررہا ہوں۔ یعنی جو بھی کام مل جائے میں کرلیتا ہوں۔ لیکن پچھلے دو سال سے میرے پاس مستقل نوکری نہیں ہے تو گزر بسر میں مشکل ہوتی ہے۔ محمد شاہد نے بتایا کہ پاکستان سمیت سات ملکوں کے لوگوں کو نکالا گیا تھا جن میں ترکی، مصر، لبنان، فلپائن اور انڈیا بھی شامل ہیں۔
’لیکن صرف پاکستانیوں کو ان کے حقوق نہیں ملے ہیں اور وہ خاموشی سے واپس آ گئے تھے لیکن اب ہم چاہتے ہیں کے اس طرف حکام کی توجہ دلائی جائے۔شکریہ بی بی سی اردو