اتوار کو چھٹی کے دن بھی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر براہی میں زینب قتل کیس کی سماعت کی۔
زینب کے اہلخانہ کی طرف سے ان کے چچا عدالت میں موجود تھے۔
زینب قتل کیس کے لیے قائم جے آئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں رپورٹ پیش کی۔
محمد ادریس نے عدالت کو بتایا کہ جون 2015 سے اب تک اس نوعیت کا یہ آٹھواں واقعہ ہے۔
جے آئی ٹی کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس مجرم کا ڈی این اے ہے اور پولیس اب تک 800 لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کر چکی ہے لیکن اب تک مجرم نہیں ملا۔
جسٹس منظور ملک نے ریمارکس میں کہا کہ اگر 2015 میں ہی ادارے الرٹ ہوتے تو یہ نہ ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف ڈی این اے کے پیچھے نہ پڑیں، تفتیش کے اور بھی طریقے ہیں۔
جسٹس منظور ملک نے جے آئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس سے کہا کہ تفتیش میں چھوٹی چیزوں پر بھی غور کریں، جیسے کہ تمام سارے پرانے کیسوں میں شام کا وقت ہے۔
اس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ تمام تفصیلات دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ پرانے کیسوں کی قمری تاریخیں بھی زیر غور ہیں۔
جسٹس منظور ملک نے کہا کہ پولیس کی غفلت ہے لیکن پکڑنا بھی پولیس نے ہے۔ انھوں نے پاکستان بار کونسل کو پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایات دیں۔
پنجاب فورینسک کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشرف طاہر بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے بتایا کہ ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج ہم نے ٹھیک کی ہے لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بچی ہی کی فوٹیج ہے۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کا مزید کہنا تھا کہ کچھ اہم باتیں ایسی ہیں جنہیں عدالت میں سب کے سامنے بیان نہیں کر سکتا۔
اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، چیمبر میں سماعت کریں گے۔‘
چیمبر میں سماعت ختم ہونے کے بعد جاری کردہ عدالتی آرڈر کے مطابق ڈاکٹر اشرف طاہر نے عدالت سے درخواست کی کہ حتمی نتیجے میں پرپہنچنے کے لیے انھیں مزید وقت درکار ہے جس پر عدالت نے اپنے تحریری حکم میں لکھا کہ جو کرنا ہے 72
شکریہ (بی بی سی اردو) گھنٹوں میں کریں۔