علامہ محمد یوسف سلطانی علیہ الرحمہ کی گرفتاری اور شھادت
تحریر محمد سجاد رضوی
انتخاب علامہ ذوالفقار علی شاکر
#شہید ناموسِ رسالت’ حضرت علامہ محمد یوسف
سلطانی علیہ الرحمہ کی گرفتاری اور شھادت کا مختصر بیان!!
#نومبر 23 ‘ 2018 ۔۔۔ یومِ عزیمت
#جب “ریاستِ مدینہ” نے علمائے کرام پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے
نومبر کا مہینہ ایک عجیب سی چبھن کے ساتھ وارد ھوتا ہے اگرچہ یہ موسم خزاں اور سردی کا اشتراک ہے اور طبیعت پہ ایک عجیب سی اداسی طاری ہوتی ہے مگر 2018 کے بعد سے یہ موسم مستقل حزن و ملال اور کرب کا سامان لئے آتشِ غم کو مزید ایندھن دیتا ہے۔ جمعة المبارک کی ادائیگی کے بعد’ واپس گھر پہنچا تو برطانیہ کے وقت کے مطابق تقریباً 3 بجے کا وقت تھا اور پاکستان میں رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ والد گرامی کو جامعہ سے گرفتار کرلیا گیا ھے جب کہ وہ مسجد میں نمازِ عشاء سے فارغ ہوکر ابھی جامعہ میں پہنچے ہی تھے ۔ والد صاحب کی عادت تھی کہ زیادہ گرم لباس کم ہی استعمال فرماتے ‘ اور اس وقت جب کہ خلوت اور آرام کا وقت تھا آپ کے جسم پہ ایک شلوار قمیص کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں تھی گیٹ پہ دستک ہوئی اور کہا گیا کہ ہم سخت مشکل میں ھیں اور مسئلہ دریافت کرنا ھے آپ نے عام سی چپل پہنے دروازہ کھولا تو حکومت وقت کے نمائندے آپ کو اسی حالت میں گرفتار کرکے جلالپور تھانے میں لے گئے۔ جہاں سے راتوں رات جہلم پھر گجرات اور آخر کار حافظ آباد منتقل کر دیا۔
آپ کے ساتھ دیگر بہت سے آئمہ’ دینی راہنما اور تحفظ ناموسِ رسالت کےلئے کام کرنے والے افراد بھی تھے۔ حافظ آباد جیل میں ان لوگوں کو ایسے رکھا گیا جیسے وہ کوئی نامی گرامی اور انتہائی مطلوب مجرم ہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ یہ اپنے آقا و مولا ﷺ کی عزت پہ پہرہ دینے کی بات کرتے تھے ورنہ والد گرامی نے اس 74 سال کی عمر میں کون سا اسلحہ اٹھانا تھا یا کوئی آتشیں لڑائی لڑنا تھی۔ دیگر عشاق کے ساتھ والد صاحب نے عزم و استقلال اور ہمتِ جواں کے ساتھ دس دن گزارے۔ دن کو میلاد شریف کی رات کو درودپاک کی محافل ہوتیں اور یوں جیل بھی “کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے” کا مصداق بن گئی۔
آپ کی استقامت کا تذکرہ آپ کے ان ساتھیوں کی زباں سے سنیں جو بعد میں رہا ہوگئے’ تو دل جھوم اٹھتا ہے۔ ان کی یہ خواہش کہ اس اسیری میں مجھے میرے آقاﷺ قبول فرما لیں ‘ ایسی پوری ہوئی کہ جس صبح آپ نے اپنے احباب سے کہا کہ اب میں نے دعا کردی ہے کہ رب تعالیٰ مجھے اپنے محبوب کریم ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرتے شھادت عطا فرمائے’ اسی رات آپ کو پہلو میں شدید درد ہوا جو کبھی پہلے نہیں ہوا تھا غالباً اس سردی کا اثر تھا جو گرفتاری سے لے کر جیل کی کوٹھڑی تک ساتھ رہی۔ آپ کو ملحق طبی امداد کے کمرے میں لے جایا گیا جہاں کسی مدد ملنے سے قبل آپ خود بلند آواز سے کئی مرتبہ کلمہ شریف پڑھتے راہِ حق کے مسافر بن گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ 3 دسمبر 2018 کی سحری تھی اور سوموار کا دن۔
23 نومبر کو ہم “یومِ عزیمت ” کے طور پہ یاد رکھیں گے اور یہ دن ہمیں ایک بزرگ عالم دین کہ جن کی عمر کے 50 سے زائد برس قران و حدیث کی تعلیم و تدریس میں گزرے اور جن کی ذات سے ہزاروں لوگوں کو محبت الہی اور محبت رسول کریم ﷺ کا نور ملا’ کی ہمت’ جراءت اور عظمت کی یاد دلآتا رہے گا۔ اور یہ بھی کہ ایک ایسا حکمران بھی آیا تھا جس نے ریاست مدینہ کے نعرے کی اوٹ میں اہل اسلام اور علمائے حق پہ ظلم و ستم کی ایسی چکی چلائی کہ اغیار بھی ایسا نہ کر پائیں اور ایسے مسلمان حکمران کہ بقولِ اقبال ” یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود”
آج تقریباً اڑھائی سال ہوچکے اس حکومت کو مگر کوئی کامیابی اس کا مقدر نہ بن سکی’ مدارس کو دبایا گیا’ علماء کو ستایا گیا اور پاکستانیوں کو مہنگائی کے پہاڑ تلے کچل کر خوب رلایا گیا لیکن “ریاست مدینہ” جیسی مقدس ترین ترکیب کو استعمال کرکے تخت حاصل کرنے والے ‘ اب اپنی حکومت بچانے کی فکر میں ہیں وہ اور تو کچھ کر نہ سکے مگر ان کے مظالم کی داستاں ‘ آنے والوں کو عبرت کا سامان تقسیم کرتی رہے گی۔
#محمد سجاد رضوی ۔ 23 نومبر 2020