تاریخ عجیب و غریب اور دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے ، ایسے واقعات کہ جو ہماری زندگی پر گہرا اثر ڈالتے یا ہم اُن سے سبق سیکھتے ہیں ،کچھ واقعات ایسے بھی ہو گزرے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اقوام نے اپنے لئے کامیابی کے راستے چُنے اور کچھ واقعات کو افسانوی یا فرضی سمجھ کر یکسر بھلا دیا گیا لیکن اُن بھلائے جانے والے واقعات کی وجہ سے بہت سی قومیں اپنی منازل سے دُور ہٹتی گئیں ۔ہم بھی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ لکھنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالنے کے لئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔1458ء سے 1511 ء تک ریاست گجرات پر حکومت کرنے والا محمد بیگدا ( محمد شاہ اول ) بلا کا بسیار خور تھا وہ روزانہ 35کلوگرام سے زائد وزن کا کھانا کھاجا تا،اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ انتہائی خطرناک زہر بھی بادشاہ کے روزانہ کے کھانوں کا حصہ ہوتا تھا،یہی نہیں بلکہ وہ زہر کی ایک مخصوص مقدار کھانا کھانے کے دوران پیتا بھی تھا۔مورخین نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک بار کسی دُشمن نے محمد شاہ اول کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی، دُشمن اُس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا لیکن اس کے بعد محمد شاہ نے یہ سوچ کر کچھ مقدار میں روزانہ زہر پینا شروع کر دیا کہ اس کا جسم زہر کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر ے اور آئندہ کوئی دُشمن اُسے زہر دے کر قتل نہ کر سکے۔ آہستہ آہستہ بادشاہ استعمال کرنے والے زہر کی مقدار بڑھاتا چلا گیا، ایک وقت ایسا آیا کہ بادشاہ جو کپڑے پہنتا اور جوکھانا بچاتا تھا، وہ بھی زہریلے ہو جاتے تھے، اس وجہ سے بادشاہ کے خدام اُن کپڑوں اور بچے ہوئے کھانے کو ہاتھ نہ لگاتے تاکہ وہ زہر انہیں نقصان نہ پہنچائے،خدام اُن اشیا کو ہاتھ لگائے بغیر کسی چیز سے اُٹھا کر باہر لے جاتے اور آگ لگا کر جلا دیتے ، یہ عین ممکن ہے کہ زہر کے استعمال نے محمد شاہ اول کے بدن میں مختلف امراض پیدا کر دئیے تھے کیونکہ وہ صرف چھیاسٹھ سال کی عمر میں چل بسا،مورخین کا خیال ہے کہ وہ ریاست گجرات پر طویل ترین حکمرانی کرنے والا بادشاہ تھا جس نے53 سال تک حکومت کی۔پاکستان کے موجودہ حکومتی نمائندے بھی اپنے سیاسی دُشمن کے وار سے بچنے اور اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے انتہائی زہریلے بیانات کا استعمال کر رہے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے بیانات سے اُن پر کوئی سزا اثر انداز نہیں ہو سکے گی ، کوئی قانون اُن کی سیاست کو ختم نہیں کر سکے گا ، اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسے بیانات جہاں اُن کی سیاست کو زندہ رکھیں گے وہاں اُن کی حکمرانی بھی زیادہ مدت تک قائم رہے گی ۔ وہ حکومتی نمائندے اپنی جان ، سیاست اور اقتدار کو بچانے کے لئے زہریلے بیانات استعمال دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے بیانات وقتی طور پر اُن کے اعمال اور کرتوتوں سے عوام الناس کا دھیان دوسری طرف مبذول تو کر دیں گے لیکن انہی بیانات کا زہر اُن کی سیاسی موت کا باعث بھی بنے گا ۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ممبئی حملوں میں پاکستانی کالعدم تنظیموں اور پاکستان سے حملہ کرنے والوں کی روانگی کے حوالے سے مقامی انگریزی اخبار کو جو بیان دیا ہے وہ بیان پاکستان کی سا لمیت اور موجودہ ملکی سیاسی صورت حال میں دیا جانا کسی ’’ زہر ‘‘ سے کم نہیں ۔ایسے بیانات ملکی سا لمیت اور استحکام کو کھوکھلا کر سکتے ہیں ، کیونکہ پہلے ہی وطن عزیز کی طرف انڈیا ، افغانستان ، امریکہ اور دوسرے دُشمن ممالک نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں ،اس بیان کو بھارتی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے ، انہوں نے واویلا کیا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے یہ اقرار کر لیا ہے کہ ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب اور دوسرے انتہا پسند پاکستان سے انڈیا گئے تھے ۔مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس بیان کے بارے میں کہا کہ میڈیا نے اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ، لیکن اس کے جواب میں میاں نواز شریف نے کہا کہ میں اپنے بیان پر اُسی طرح قائم ہوں ،اُن کا کہنا تھا کہ مجھ سے پہلے بھی یہی بیان پاکستان کے بہت سے حکمرانوں نے دیا ہوا ہے جب میں نے یہ بیان دیا تو مجھے غدار کہا جا رہا ہے ، انہوں نے اپنے بیان میں زہر کی مقدار بڑھاتے ہوئے کہا کہ ابھی میرے پاس بہت سے اہم راز ہیں میں اُن پرسے بھی پردہ اٹھاؤں گا ۔دوسری طرف پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ممبئی حملوں کے تناظر میں دیئے گئے بیان کو متفقہ طور پر غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے ،اس کے جواب میں میاں نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کو مسترد کر دیا ہے ۔دُنیا کے تمام ممالک کے حکمران اور وہاں کے عوام سب کے سامنے ہیں ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ملک کا تین بار بننے والا وزیر اعظم ایسا بیان دے جس سے ملکی سا لمیت کو خطرہ ہو ،ایسے بیانات سے سابق وزیر اعظم’’ انٹرنیشنل لیول‘‘ پر سپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیںیا وہ عدالتوں اور دوسرے اداروں کا دھیان اپنی طرف سے ہٹانا چاہتے ہیں ؟بہر حال تمام اداروں اور عوام الناس کا دھیان یقیناً ایسے بیانات کی جانب ہے ۔اِس زہریلی بیان بازی سے پیدا ہونے والی صورت حال کا سب سے بڑا فائدہ کرنل جوزف کو ملا جو بغیر کسی رکاوٹ کے امریکا جانے میں کامیاب ہو گیا ۔ جیسا کہ ایک دن اکبر بادشاہ اپنے نورتنوں کے درمیان بیٹھا تھا۔’’ کدو ‘‘ موضوع سخن تھا، اکبر بادشاہ کہنے لگا ،سنا ہے کدو بڑی اچھی سبزی ہے؟قریب ہی بیٹھے اکبر بادشاہ کے وزیر بیربل نے تائید کرتے ہوئے کہا’’جہاں پناہ کدو تو سبزیوں کا شہنشاہ ہے،کدو تو بے شمار دوائیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ آنکھیں خراب ہوں تو کدو کا پانی آنکھوں میں ڈالیں، اگر پاؤں جلتے ہوں تو تلووں پر کاٹ کر رگڑیںتلخی یا گرمی فوراً ٹھیک ہوجائے گی، دال یا گوشت میں ڈالیں، حلوہ یا رائتہ تیار کریں غرض ہر حالت میں لطف دے گا۔‘‘یہ سن کر اکبر بادشاہ کہنے لگا ’’لیکن مجھے کدو کچھ زیادہ پسند نہیں۔‘‘بیربل نے فوراً پینترا بدلا اور بولا ’’ بجا ارشاد فرمایا عالم پناہ !کدو بھی کوئی کھانے کی چیز ہے، انتہائی بدذائقہ سبزی ہے، اسے کون کھاتا ہے؟‘‘یہ سن کر اکبر نے کہا ‘‘ تم عجیب آدمی ہو۔ ابھی کدو کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے اور جب میں نے کدو سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو اس میں کیڑے نکالنے شروع کردئیے۔‘‘بیربل نے برجستہ جواب دیا ’’جہاں پناہ میں آپ کا نمک خوار ہوں، کدو کا نہیں۔ہمارے سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ملک کی خیر خواہی کی بات کریں پاکستان کے نمک خوار بنیں نہ کہ کسی دوسرے ملک کے ۔سیاستدان اپنی سیاست اور حکمرانی بچانے کے لئے بیان دیں لیکن وہ بیانات ایسے نہ ہوں کہ جس سے ملک میں انتشار پھیلے اور ملکی استحکام و سا لمیت کو خطرہ لاحق ہو ۔ہمیں یورپی ممالک اور دُنیا کی بڑی طاقتوں کی طرح پاکستان میں بھی قانون کی بالا دستی اور اُس کے احترام کو لازم بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستان بنانے اور رہتی دُنیا تک اِسے قائم و دائم رکھنے کے لئے پاکستانی عوام اور آرمی کے جوانوں نے جو مالی اور جانی قربانیاں دی ہیں وہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنی سر زمین پر قانون کی بالا دستی اور یکساں انصاف کا بول بالا کریں اور اپنا تن من دھن وطن عزیز کی حفاظت کے لئے قربان کرنے سے دریغ نہ کریں ۔