ڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام نے سپریم کورٹ سے معافی مانگ لی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کلیم امام کی رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے، احسن جمیل گجر وزیراعلیٰ کے پاس سفارش لے کر گئے تھے لیکن رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا ہے، اسے مسترد کرتے ہیں، ان کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایات جاری کریں گے۔سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں کو بٹھا کر کہتے ہیں کہ ان کی بات سنیں، جمیل گجر کس کا سرپرست ہے، عثمان بزدار نے کہا کہ بطور وزیراعلیٰ بتایا گیا کہ مانیکا فیملی کو خدشات ہیں، آئی جی اسلام آباد میں تھے اس لیے افسران کو بلایا، پولیس کو غیر سیاسی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب سے استفسار کیا کہ رات کو کیوں کہا کہ مجھے صبح اس پولیس افسر کی شکل نہیں دیکھنی، جس پر عثمان بزدار نے کہا کہ میں نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ رات ایک بجے کا تبادلہ ہضم نہیں ہو رہا، رات گئے تبادلے کے نتائج بھگتنا ہوں گے، وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اجلاس غیر اخلاقی تھا اور غیر اخلاقی اجلاس پر آرٹیکل 62 ون ایف لگ سکتا ہے۔سماعت کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام نے عدالت سے معافی مانگ لی، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام نے کہا کہ آئندہ محتاط رہوں گا، انتہائی ذمہ داری سے کام کیا تاہم غلطی ہوئی ہے تو عدالت کے سامنے سرنڈر کرتا ہوں۔عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب کو آئندہ احتیاط کرنے کی ہدایت کی اور سینئر پولیس افسر خالد لک کو رات گئے ڈی پی او کے تبادلے اور پورے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ 15 دن میں پیش کرنے کا حکم دیا۔