وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 19-2018 کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔اس حوالے سے قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر جاری ہے ۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک حکومت مسلسل چھٹا بجٹ پیش کررہی ہےجس پر اپوزیشن کی جانب سےایوان میں احتجاج کیا گیا ۔
اپوزیشن کا موقف ہے کہ چونکہ حکومت کی میعاد صرف پانچ ہفتے رہ گئی ہے اس لئے اسے پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔
وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 55 کھرب روپے سے زائدہے۔
بجٹ اجلاس سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر کے دوران کہا کہ بجٹ کی منظوری کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی ، اگلی منتخب حکومت کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ بجٹ کی ترجیحات میں ترمیم کرسکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آج ہم اس ایوان میں نوازشریف کی کمی محسوس کررہے ہیں،2008 سے2013 کے دوران مہنگائی کی شرح 12 فیصد تھی ،ہم نے پانچ سال میں مشکل اور تکلیف دہ فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں شرح نمو 5.8 فیصد تھی ، جو پچھلے تیرہ سال میں سب سے زیادہ ہے ،آج ہم دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت ہیں ، ہم نےپانچ برس میں اوسط افراط زر پانچ فیصد سے کم پر رکھی ہے ۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی اور اپوزیشن اراکین نے بجٹ تقریر کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑادیں۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ بجٹ عوام کی امنگوں کا عکاس ہے، حکومت کو تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی تھی، ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کم تھی، مئی 2013 میں حکومت آئی اور معیشت کی بہتری کے لیے پروگرام دیا، نوازشریف کی قیادت میں ان چیلنجز کا سامنا کیا، پانچ سالوں میں سخت محنت کی، مشکل فیصلے کیے، ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دی۔
وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ شرح نمو 5.79 فیصد رہی جو گزشتہ 13 سالوں میں سب سے زیادہ ہے، پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور آج ملک دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہاکہ موجودہ مالی سال میں مارچ تک افراط زر کی شرح 3.8 فیصد رہی،گزشتہ 5 برسوں کے دوران ٹیکس وصولیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ تاریخ کی کم ترین شرح سود کے باعث ملک میں ترقی کے مواقع پیدا ہوئے، زرعی قرضوں پر شرح سود میں بھی کافی کمی آئی ہے، قیمتوں میں استحکام پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ یکم جولائی 2018 سے سول ،فوجی ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا گیا ہے، تمام پنشنرز کے لیے بھی 10 فیصداضافہ کیا گیاہے، ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی 50 فیصد اضافہ کیا گیاہے، پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپےکردی گئی ہے، فیملی پنشن کو 4500 روپے سے بڑھا کر 7500 کردیا گیا ہے، 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کے کےلیے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جب کہ اسٹاف، کار ڈرائیور، ڈسپیچ رائیڈرز کےلیے اوور ٹائم الاؤنس 40 روپے فی گھنٹا سے بڑھ کر 80 روپے فی گھنٹا ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے لیے گھر، موٹرسائیکل خریدنے کے لیے ایڈوانس کی مد میں 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سینئر آفیسرز پرفارمنس الاؤنس کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
بی آئی ایس پی فنڈ میں اضافہ
مشیر خزانہ کا بجٹ تقریر میں کہنا تھا کہ 2013 میں بی آئی ایس پی کے ذریعے 37 لاکھ خاندانوں کے لیے 40 ارب روپے رکھے گئے تھے، 2013 میں اس پروگرام کے لیے فی خاندان سہ ماہی وظیفہ 3000 روپے مقرر تھا لیکن ہم نے نا صرف اس کے حجم میں 113 ارب روپے تک اضافہ کیا بلکہ فی خاندان سہ ماہی وظیفہ 4834 روپے کردیا، امسال 19-2018 میں بی آئی ایس پی کو 124 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بیواؤں کےقرضہ جات کی حد ساڑھے 3 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کردی گئی ہے جب کہ غربت کے خاتمے کے فنڈ کے لیے 68 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آمدنی پر انکم ٹیکس
مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ نان فائلرکمپنی پرود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 7 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد کرنے کی تجویز ہے، 4 لاکھ سے 8 لاکھ آمدن پر ایک ہزار روپے انکم ٹیکس عائد ہوگا، 8 لاکھ سے 12 لاکھ آمدن پر 2 ہزار روپے برائے نام انکم ٹیکس عائد ہوگا، نان فائلرزکو40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، ٹیکس گزاروں کو 3 سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ آڈٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جائیداد پر ود ہولڈنگ ٹیکس، خریدار کی ظاہر کردہ ویلیو پر ایک فیصد ایڈجسٹ ایبل ایڈوانس ٹیکس کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فرٹیلائزر مینو فیکچررز کے لیے ایل این جی کی درآمد پر عائد 5 فیصد سیلزٹیکس ختم کردیا گیا، ایل این جی کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کردیا گیاہے، ایل این جی کی درآمد، آر ایل این جی کی سپلائی پر17 فیصد سیلزٹیکس کم کردیا گیا ہے، نان کارپوریٹیڈکیسز کی صورت میں ودہولڈنگ ٹیکس 7.75 فیصد سے بڑھا کر9 فیصد کرنے کی تجویز ہے، ٹیکس لائبلٹی کی حد 25 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے، جائیداد کی خریدوفروخت، ویلیو پرسودے کا اندراج کرنے کی تجویز ہے، صوبے اعلان کردہ ویلیو پر مجموعی ایک فیصد صوبائی ٹیکس بطوراسٹیمپ ڈیوٹی،کیپٹل ویلیو ٹیکس لیں گے۔
ایس آئی یو ٹی، سیلانی، انکم ٹیکس سے مستثنیٰ
مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ قرآن پاک کی طباعت میں استعمال ہونے والے کاغذ پر سیلز اور کسٹم ڈیوٹی ختم، فلاحی ادارے، ایس یو آئی ٹی، عزیز طباء فانڈیشن، سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ اور الشفاء آئی اسپتال کو انکم ٹیکس سے استثنا قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پرعائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح 50 فیصد کم کرکے 25 فیصدکردی گئی، بجلی کی گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشن پرعائد 16 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ بھی ہوگی، الیکٹرک گاڑیوں کی اسمبلی کے لیے سی کے ڈی کٹ 10 فیصد کی رعایتی شرح پر درآمد کرنے کی تجویز ہے، ایل ای ڈی پارٹس اورخام مال پرعائد 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی واپس لینےکی تجویز ہے۔
سگریٹ کی فیڈرل ایکسائر ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز
وزیر خزانہ نے بتایا کہ سیگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز ہے جس کے تحت ٹیئر ون سیگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 3 ہزار 964 روپے مقرر کرنے، ٹیئر ٹو سیگریٹ پر ایک ہزار 770 روپے اور ٹیئر تھری سیگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 848 روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔
ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب
بجٹ دستاویز کے مطابق جاری اخراجات کے لیے 478 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی حکومت کا ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب اورایک کروڑ روپے ہوگا، جنرل پبلک سروسز پر اخراجات 3 ہزار340 ارب روپے ہوں گے، دستیاب وسائل میں محصولات کا حصہ 2 ہزار 590 ارب روپے رکھا گیا ہے، دستیاب وسائل کا تخمینہ 4 ہزار713 ارب 70 کروڑروپے رکھا گیا جب کہ بیرونی دستیاب وسائل ایک ہزار118 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولٹری سیکٹر کے لیے مختلف وٹامنزکی درآمد پرکسٹم ڈیوٹی 10سے کم کرکے5 فیصد کرنے کی تجویز ہے، بیلوں کی درآمد پر 3فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویزہے، زراعت، ڈیری اور پولٹری کے شعبوں کے لیے ریلیف کی تجویز ہے، فش فیڈ پرعائد 10 فیصد سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، ڈیری فارمز کے پنکھوں اورجانوروں کی خوراک پرعائد سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، زرعی مشینری پرسیلزٹیکس کی شرح 7 سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
استعمال شدہ کپڑوں پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، چمڑے، کپڑے کی مصنوعات پر غیررجسٹرڈ افراد کے لیے سیلز ٹیکس 9 فیصد کرنے کی تجویز ہے، چمڑے، کپڑے کی مصنوعات پر 6فیصد سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کیلیے برقراررہے گاْ
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز کی تیاری، اسمبلنگ کے21 پرزہ جات کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیاہے، مقامی اسٹیشنری آیٹمزپرزیرو ریٹنگ بحال کرنے کی تجویزہے۔
سمندری پانی کیلئے پلانٹ
مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ کراچی میں سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے پلانٹ تعمیر کیا جائے گا جس سے یومیہ 50 ملین گیلن پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔
وزیر خزانہ کےمطابق وفاقی حکومت گرین لائن منصوبےکے لیے بسیں خرید کر دینے کی بھی پیش کش کرتی ہے۔
کھاد پر سیلز ٹیکس کی شرح کم
وزیر خزانہ نے کہا کہ کھاد کے کارخانوں پر گیس کی فراہمی پر سیلز ٹیکس 10 سےکم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے، ہرقسم کی کھادوں پرسیلز ٹیکس کی شرح 3 فیصد تک کم کرنے کی تجویز، یوریاکھاد پرسیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد اورڈی اے پی پر100روپے فی بوری ہے۔
کینسر کی ادویات پر کسٹم ڈیوٹی ختم
مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کینسر کی تمام ادویات پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے، نظر کی عینکوں پر کسٹم ڈیوٹی 11 سے کم کرکے 3 فیصد کرنےکی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ نے فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے 4 نکاتی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ فلم پرسرمایہ کاری پر 5 سال تک انکم ٹیکس پر 50 فی صد چھوٹ کی تجویز ہے، مستحق فنکاروں کی مالی مدد کے لئے فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آپٹیکل فائبر کیبل کی دآرمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی 20 سے کم کر کے 10 فیصد رکھنے کی تجویز ہے، آپٹیکل فائبر کیبل کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے، پلاسٹک کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے، ٹائر بنانے کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کرنے کی تجویز ہے، ٹرانسفارمرز میں استعمال ہونیوالی اسٹیل شیٹ پر کسٹم ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔بشکریہ روزنامہ جنگ