خیبر پختونخوا کے گاؤں عُشیری درہ میں یہ یقینا ایک عجیب منظر ہے جہاں ایک خاتون سڑک پر آتے جاتے مردوں میں پمفلٹ تقسیم کر رہی ہیں۔ کبھی وہ کسی دکان کے پاس رکتی ہے اور وہاں موجود مرد حضرات کو بتاتی ہیں کہ وہ ان کی بہن ہیں اور ‘بہن کو ووٹ ملنا چاہیے’۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام مرد حضرات رکتے ہیں، ان کی بات سنتے ہیں، ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ جلد فیصلہ کریں گے کہ کِس پارٹی یا امیدوار کی حمایت کرنی ہے۔
عشیری درہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی تحصیل دِیر بالا میں واقع ہے اور پمفلٹ بانٹنے والی یہ خاتون پاکستان تحریکِ انصاف کی حمیدہ شاہد ہیں۔ دِیر بالا وہی علاقہ ہے جو ماضی میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دیے جانے کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے۔ اور رواں برس فروری میں ضمنی انتخابات میں یہاں خواتین نے تقریباً چار دہائیوں کے بعد پہلی بار حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔
حمیدہ شاہد نے یہاں بھرپور انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے، وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 10 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ دِیر کی خواتین کے لیے مثال بننا چاہتی ہیں، ‘میں نے سوچا کہ اگر ایک عورت ووٹ ڈال سکتی ہے تو وہ الیکشن میں کھڑی بھی ہو سکتی ہے۔’
عشیری درہ حمیدہ کے انتخابی دفتر سے تقریبا دو گھنٹے کی مسافت پر ہے، یہاں جانے کے لیے سڑک انتہائی خستہ حال ہے جبکہ آبادی تک جانے کے لیے پرپیچ چڑھائی والا راستہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دِیر کے اس غریب علاقے میں انفراسٹرکچر نام کی کوئی شے نہیں، یہاں سڑکیں، اسپتال، بجلی، پینے کا صاف پانی حتیٰ کہ سکول تک موجود نہیں، پچھلے ساٹھ سالوں میں جب بھی الیکشن ہوئے کوئی نہ کوئی تو جیتتا ہی رہا مگر مذہب کے نام پر مقامی آبادی کو ٹیکہ لگایا گیا اور جیتنے کے بعد کوئی یہاں کا رُخ نہیں کرتا تھا۔ لیکن میں اب تبدیلی لاؤں گی۔’شکریہ بی بی سی اردو