صحافت ریاست کا چوتھا ستون پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ؟

0
621

صحافت ریاست کا چوتھا ستون پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ؟
(زبان حلق )تحریر چوہدری رستم اجنالہ

صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے لیکن شائید پاکستان میں یہ صرف زبان کی حد تک ہی چوتھا ستون رہ گیا ہے صحافت ریاست کا چوتھا ستون لیکن پاکستان میں اس ستون کی اہمیت کیا ہے اج ایک خبر سنی سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھی کہ شہباز گل نے صحافی بھائی کے ساتھ بدتمیزی کی اور گھٹیا زبان کا استعمال کیا جس کا مجھے ایک صحافی ہونے کے ناطے بے حد افسوس ہوا کہ کوئی شخص ہمارے پیشہ کے بارے میں اس طرح کی گھٹیا زبان استعمال کرے وہ خواہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہو ہم اس کی پھر پور مذمت کرتے ہیں اور اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا شہباز گل میڈیا پر آ کر سرعام معافی مانگے کیونکہ حکومتی وزیر مشیر اپوزیشن کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے ہیں صحافیوں کے بارے میں اس طرح کی زبان اندازی نہ کریں اور نہ ہی کسی کو اجازت ہے ۔یہی لوگ جب ضرورت پڑتی ہے تو صحافت کو چوتھا ستون قرار دیتے ہیں اور جب اقدار میں آتے ہیں اور اقدار کے نشے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ صحافی لوگ اپ کو عوام کے سامنے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور سیاسی لوگ انکا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے اور جب کرسی ملتی ہے تو کوئی صحافی سوال کر دے جو ان کے مزاج کے خلاف ہو تو یہ گھٹیا قسم کی اور انسانیت سے گری ہوئی زبان استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں شہباز گل صاحب حکومت میں آنے سے پہلے اپ کے لیڈر عمران خان یہ کہتے تھے کہ مجھے یہاں تک پہنچانے میں میڈیا کا اہم کردار ہے میڈیا کی تعریفوں کے جو پل باندھے گے تھے وہ اج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد میڈیا کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے کہ اس کی پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی حکومتی ارکان کبھی کسی صحافی پر ہاتھ اٹھاتے ہے تو کوئی گھٹیا زبان استعمال کر رہا ہے ہم وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فورا اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے شہباز گل کو میڈیا پر آکر سرعام معافی کا کہیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومت اور میڈیا کے درمیان مزید فاصلے بڑھیں گے اور یہ حکومت ہمیشہ نہیں رہتی اور صدا بادشاہی خدا کی ہے اور میری میڈیا تنظیموں سے بھی درخواست ہے کہ اگر حکومت اور شہباز گل معافی نہیں مانگتے تو حکومتی ارکان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور معافی مانگنے پر مجبور کیا جائےاگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کو نہ روکا گیا تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور صحافیوں کی عزت نفس مجروح ہوتی رہے گی ہو سکتا ہے کہ کل کسی اور صحافی کو نشانہ بنایا جائے جس میں میں اور اپ بھی ہو سکتے ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here