کعبۃ اللہ کی تعمیر کے مراحل اور ادوار تحریر انعام الحق قادری

0
84

کعبۃ اللہ کی تعمیر کے مراحل اور ادوار*
تحریر
الحافظ انعام الحق مدنی
مدینہ منورہ
1۔ *ملائکہ سے تعمیر*
سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں نے کی، حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ (امام زین العابدين رضی اللہ عنہ) سے ایک آدمی نے پوچھا: بیت اللہ کا طواف کب سے ہو رہا ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کے بارے میں اطلاع دی تو انہوں نے عرض کیا ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کرنے والے ہیں اور آپ ہمارے ایسے بشر کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ فرشتوں کو اپنی عرض پر نہایت ہی شرمندگی ہوئی، انہوں نے حالت زاری اور تضرع میں عرش الٰہی کا تین دفعہ طواف کیا، اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے عرش کے نیچے ’’بیت المعمور‘‘ بنا کر فرمایا: تم اس کا طواف کیا کرو، اس کا ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں۔ ایک دفعہ طواف کرنے والے دوبارہ نہیں آتے، اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا: اب تم زمین پر جاؤ۔

إِبْنُوْا لِی بَيْتًا فِی الْأَرْضِ بِمِثَالِه وَقَدْرِهِ.

’’اسی کی مثل و مقدار کے مطابق زمین پر میرا گھر بناؤ۔‘‘

جب گھر بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والی مخلوق کو حکم دیا:

أَنْ يَّطُوْفُوْا بِهَذَا الْبَيْتِ کَمَا يَطُوْفُ أَهْلُ السَّمَآءِ بِالْبَيْتِ الُمَعْمُوْرِ

(ازرقی، اخبار مکه، 1: 34)

’’اس گھر کا تم بھی اسی طرح طواف کرو جیسے آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں۔‘‘

سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل فرشتوں نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا زمین پر رہنے والے ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کے طواف اور حج کرنے کا حکم دیا تھا۔

(ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 5: 263)

2۔ *سیدنا آدم علیہ السلام سے بیت اللہ کی تعمیر*
سیدنا آدم اور حضرت حوا علیہما السلام جب زمین پر آئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیامولا میں اس لذت و سرور سے محروم ہو گیا ہوں جو فرشتوں کے ساتھ بیت المعمور کے طواف میں آیا کرتا تھا۔ کاش ہمیں پھر وہاں لوٹا دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا: اے آدم!

اِبْنِ لِي بَيْتًا بِحِذَاءِ بَيْتِی الَّذِی فِی السَّمَآءِ تَتَعَبَّدُ فِيْهِ اَنْتَ وَوَلَدُکَ کَمَا تَتَعَبَّدُ مَلائِکَتِی حَوْلَ عَرْشِيْ.

(الصالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 147)

’’تم اسی آسمانی گھر (بیت المعمور) کے مقابل زمین پر میرا گھر بناؤ اور اس میں تم اور تمہاری اولاد اسی طرح عبادت کرو جیسے ملائکہ میرے عرش کے ارد گرد کرتے ہیں۔‘‘

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:

فَطُفْ بِه وَاذْکُرْنِی حَوْلَهُ کَمَا رَاَيْتَ الْمَلاَئِکَةَ تَصْنَعُ حَوْلَ عَرْشِی.

’’اس کا طواف کرو اور اس کے ارد گرد میرا ذکر کرو جیسا کہ تم نے ملائکہ کو میرے عرش کے ارد گرد کرتے دیکھا ہوا ہے۔‘‘

سیدنا آدم علیہ السلام حضرت جبرائیل امین کی رہنمائی میں مکہ معظمہ پہنچے وہاں جبرائیل علیہ السلام نے پر مار کر کعبہ کی بنیادیں ظاہر کیں جو انتہائی گہری تھیں پھر فرشتے، پانچ مختلف پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں لائے جن میں سے ایک چٹان تیس آدمی مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ان پتھروں سے بیت اللہ شریف تعمیر کیا۔

(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 12
صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 147)

3۔ *حضرت شیث علیہ السلام سے بیت اللہ کی تعمیر*
امام ازرقی وہب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ یاقوت کا وہ خیمہ جو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے لئے جنت سے اتارا گیا تھا آپ کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا تب انہی بنیادوں پر آپ کی اولاد نے مٹی اور پتھروں سے کعبۃ اللہ تعمیر کیا اور وہ عمارت طوفان نوح تک قائم رہی۔

حضرت آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے تعمیر کعبہ کی سعادت حضرت شیث علیہ السلام کو حاصل ہوئی۔

(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 32
صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 148)

4۔ *حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیت اللہ کی تعمیر*
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ معظمہ میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے رہے۔ جب تیسری بار بیت اللہ کی تعمیر کے سلسلہ میں تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام جن کی عمر اس وقت بیس سال تھی چاہِ زمزم کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے تیر بنا رہے تھےطویل عرصے کی جدائی کے بعد والد گرامی کے چہرہ اقدس کی زیارت سے خوشی کی لہر دوڑ گئی انتہائی تعظیم و تکریم سے خوش آمدید کہا ابتدائی گفت و شنید کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’بے شک تیرے رب نے مجھے اس کا گھر (بیت اللہ) کی تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے عرض کیا (ابا جان) آپ اللہ کے حکم کی اطاعت میں جلدی کریں۔ ارشاد فرمایا رب کائنات نے اس عظیم کام میں تجھے میری مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عر ض کیا میں حاضر ہوں آپ کر گزریے۔‘‘

(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 40)

اللہ تعالیٰ کے یہ دونوں مقرب بندے اس امرِ عظیم کی تکمیل کے لئے کمربستہ ہو گئے ایک عزم اور ولولہ کے ساتھ تعمیر کعبہ کا ارادہ کیا اس عزم اور ولولے میں احساسِ بندگی اور عاجزی کا عنصر غالب تھامگر ابھی تک یہ حقیقت منکشف نہ ہوئی تھی کہ بیت اللہ شریف کا حدود اربعہ کیا ہے دیواروں کی لمبائی و چوڑائی کتنی ہےکیونکہ طویل مدت اور سیلاب نے اس کے قدیم نشانات کو ختم کردیا تھا۔

سو قدرتِ خداوندی سے ان مکرم بندوں کی رہنمائی کے لئے اچانک ایک بدلی نمودار ہوئی جس سے یہ صدا آرہی تھی کہ جس قدر طول و عرض اس بدلی کے سایہ کا ہے۔ اسی قدر جگہ میں آپ بیت اللہ کی دیوار کھڑی کریں اس میں کمی بیشی نہ ہونے پائے۔

(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 42)

بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل امین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے بنیادوں کی نشاندہی کی تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک مجسم ہوا آئی جس کا نام ’’ریح الخجوج‘‘ تھا اس نے بیت اللہ کی جگہ کے گرد طواف کر کے اس کی حدود کو واضح کیا تھا۔ اس وقت یہ جگہ ایک ابھرے ہوئے سرخ ٹیلے کی طرح تھی۔

(ازرقی، اخبار مکه، 1: 60)

غرضیکہ باپ اور بیٹے نے کعبہ کی نشان زدہ بنیادوں کی کھدائی شروع کر دی کچھ دیر بعد قدیم بنائے آدم علیہ السلام بھی ظاہر ہو گئی جس پر انہوں نے تعمیر کرنا تھی۔ کام کا آغاز ہوا چشمِ فلک نے دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک مزدور کے بھیس میں پتھر لانے کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک معمار کی حیثیت سے اپنے مقدس ہاتھوں سے دیوار چن رہے ہیں۔ مٹی، گارا یا چونے کی مدد کے بغیر ہی پتھر جوڑے چلے جا رہے ہیں اور وہ پتھر اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ تیس آدمی مل کر بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس تعمیر میں کام آنے والے پتھر پانچ مختلف پہاڑوں، طور سینا، طور سیتا، کوہ لبنان، کوہ جودی اور کوہ حرا سے فرشتے لے کر آئے تھے۔ بنیادوں میں کوہ حرا کے پتھر استعمال ہوئے جب دیواروں کی بلندی کچھ زیادہ ہو گئی اور پتھر لگانے میں دشواری محسوس ہونے لگی تو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ کوئی ایسا پتھر تلاش کرو جس پر کھڑے ہو کر بآسانی تعمیر مکمل کی جا سکے۔ سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نظر انتخاب جس پتھر پر پڑی وہ یادگار پتھر تھا جسے قرآن حکیم میں ’’مقام ابراہیم‘‘ کے مبارک اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اس پتھر نے اپنے مزاج کی سنگینی اور سختی کے باوجود آپ علیہ السلام کے نقشِ پا کا اس قدر گہرا اثر قبول کیا کہ زمانے کے حوادث بھی اسے نہ مٹا سکے جس کا نظارہ آج بھی مسلمانانِ عالم بچشم نم خود کر رہے ہیں۔

(ازرقی، اخبار مکه، 1: 62)

اس عظیم الشان تعمیر کے دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام انتہائی عاجزی وانکساری اور شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات سے سرشار ہو کر اپنے فریضے میں مگن رہے اور یہ دعا مانگتے رہے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمَ.

(البقرة، 2: 127)

’’اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

5۔ *قبیلہ جرہم سے بیت اللہ کی تعمیر*
شیخ ازرقی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت کعبہ منہدم ہو گئی تو قبیلہ جرہم نے کعبہ کی تعمیر انہی بنیادوں پر کر دی۔ مسعودی نے مروج الذہب میں ذکر کیا ہے کہ جس شخص کی سربراہی میں یہ تعمیر مکمل ہوئی اس کا نام حارث بن اعضاض الاصفر تھا۔

(الاعلام باعلام بيت اللہ الحرام: 48)

6۔ *قوم عمالقہ سے بیت اللہ کی تعمیر*
چھٹی تعمیر قوم عمالقہ نے کی، اس کے برعکس بھی مروی ہے کہ پانچویں تعمیر عمالقہ نے اور چھٹی جرہم نے کی، امام ابن ابی شيبہ، اسحاق بن راہویہ اور ابن جریر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ عمارت منہدم ہو گئی۔

فَبَنَتْهُ الْعَمَالِقَةُ، ثُمَّ انْهَدَمَ فَبَنَتْهُ جُرْهُمُ.

(صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 163)

’’تو اسے عمالقہ نے بنایا (یہ تعمیر) پھر منہدم ہوئی تو قبیلہ جرہم نے تعمیر کیا۔‘‘

7- *حضرت قصی بن کلاب سے بیت اللہ کی تعمیر*
قاضی مکہ زبیر بن بکار اپنی کتاب ’’نسب قریش‘‘ میں لکھتے ہیں جب قصی بن کلاب کعبہ کے متولی بنے تو انہوں نے اس کی ایسی تعمیر کروائی:

لَمْ يَبْنِهِ أَحَدٌ مِّمَنْ بَنَاهَا قَبْلَهُ مِثْلَهُ.

(علامه قطب الدين، اعلام العلماء: 47)

’’کہ اس سے پہلے ایسی تعمیر کسی نے نہیں کروائی۔‘‘

قریش میں قصی پہلا آدمی تھا جسے کعبۃ اللہ تعمیر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد میں سے تھا اور آپ سے تقریباً 130 سال پہلے اس کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

(محمد طاهر الکردی المکی، التاريخ القوم، 3: 129)

8۔ *قبیلہ قریش سے بیت اللہ کی تعمیر*
قریش نے جب محسوس کیا کہ عمارتِ کعبہ سیلاب کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے تو انہوں نے اس کی نئی تعمیر کے فیصلہ کا اعلان کیا اور اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی کے ماموں جناب ابو وھب جو بڑے حقیقت شناس اور دور اندیش انسان تھے اپنی قوم سے مخاطب ہوئے:

’’اے گروہِ قریش! وعدہ کرو کہ کعبہ کی تعمیر پر تم بالکل پاکیزہ حلال اور صاف کمائی ہی خرچ کرو گے اور غارت گری اور بدکاری کا ایک پیسہ بھی اس پر نہیں لگاؤ گے۔‘‘

(ابن کثير، البدايه والنهايه، 2: 301)

تمام قبائل نے وعدہ کیا اور کعبہ معظمہ کے ایک ایک حصے کی تعمیر اپنے ذمہ لے لی۔ تعمیر کعبہ بہت بڑی سعادت تھی۔ سب لوگ مزدوروں کی طرح لگ گئے چھوٹے بڑے کا امتیاز مٹ گیا۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرنے میں مصروف رہا۔ یہ وہ بابرکت عمل تھا جس میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حصہ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھر لا لا کر دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اس باہمی تعاون اور اتحاد و یگانگت کی فضا میں تعمیر کعبہ مکمل ہوئی۔

9۔ *حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بیت اللہ کی تعمیر*
خلفاء راشدین کے دور میں مسجد حرام میں توسیع تو ہوئی مگر بیت اللہ تعمیر قریش کے مطابق ہی رہا۔ تریسٹھ ہجری میں یزید حکمران بنا، اس نے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی جانب بیعت سے انکار کرنے والوں سے جنگ کرنے کے لئے ایک لشکر جرار بھیجا چونکہ اہالیان مکہ اور مدینہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر چکے تھے اس لئے انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ نتیجتاً فریقین کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ شب و روز لشکر والوں نے منجیق سے پتھر پھینکے جس کی وجہ سے کعبہ کی بعض دیواریں گر گئیں اور اس کی چھت و غلاف جل گئے۔

(علامه قطب الدين، اعلام العلماء، 69)

ادھر سے یزید کی موت کی خبر آنے پر لشکر واپس ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تمام کعبہ کی تعمیر نئے سرے سے کروائی چونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ذہن میں تھا اس لئے انہوں نے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں کو ہی پیش نظر رکھا یعنی حطیم کو کعبہ کی عمارت میں شامل کر دیا، دروازہ زمین پر رکھا اور مشرق و مغرب کی جانب دو دروازے بنا دیئے۔ حضرت یزید بن رومان سے منقول ہے کہ اس موقعہ پر وہ موجود تھا۔

فَأَدْخَلَ فِيْهِ مِنَ الْحَجَرِ، وَقَدْ رَاَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيْمَ حِجَارَةً کَأَسْنِمَةَ الْإِبِلِ.

(صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1: 165)

’’تو حطیم کو پھر شامل کر دیا گیا اور میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیاد کے پتھروں کو دیکھا وہ اونٹ کی کہان کی طرح تھے۔‘‘

اس عظیم الشان کام کی بحسن و خوبی تکمیل پر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ الوہیت میں اظہار تشکر کے لئے تنعیم سے چل کر لوگوں کی ایک بہت بڑی جمعیت کے ساتھ عمرہ ادا کیا اور اس سعادت عظیم کے حصول پر بارگاہ خداوندی میں سجدہ شکر بجا لائے۔

10۔ *حجاج بن یوسف سے بیت اللہ کی تعمیر*
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی تعمیر کردہ عمارت تقریباً دس سال تک قائم رہی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے تو 74ھ میں حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کو کعبہ کی اس تعمیر کے بارے میں لکھا اور کہا اس تعمیر کو اہل مکہ پسند نہیں کرتے تو اس نے یہ آرڈر جاری کیا:

’’ابن زبیر نے جو لمبائی میں اضافہ کیا اسے قائم رکھا جائے اور جو حطیم والا حصہ شامل کیا ہے اسے خارج کر دیا جائے اور جو دوسرا غربی دروازہ بنایا اسے بھی بند کر دیا جائے، لہذا حجاج بن یوسف نے دوبارہ اسے قریش کی تعمیر کے مطابق ہی کر دیا۔‘‘
11۔ *سلطان مراد خان عثمانی سے بیت اللہ کی تعمیر*
اس تعمیر کے 966 سال بعد سیلاب سے کعبہ شریف منہدم ہوا تو 1040ھ میں سلطان مراد خان عثمانی نے اسے تعمیر کیا اس کے بعد علامہ طاہر کردی لکھتے ہیں:

’’(سلطان مراد کی تعمیر کردہ) یہی عمارت ہمارے زمانے تک قائم چلی آ رہی ہے۔‘‘

(محمد طاهر الکردی المکی، تاريخ القويم، 3: 301)

اس کے بعد کعبہ کی تعمیر نہیں ہوئی البتہ اس میں اصلاحات اور مرمت کا کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here